ایک نہایت ہی خوبصورت واقعہ
النمل کی 62 نمبر آیت میں ایک بڑی ہی خوبصورت بات لکھی ہے ۔ اور میں آپ کو اس آیت کا مفہوم سنا دیتا ہوں کہ
مجبور کہ جب وہ پکارے ، تو کون ہے کہ جو اس کی دعا کو قبول کرتا ہے ؟ کون ہے کہ جو اس کی سختی کو دور کرتا ہے ؟
مفہوم آیت النمل (27:62
اور یہاں سے شروع ہوتا ہے ہمارا ناياب واقعہ ۔
ابن عساكر ، یعنی اس کتاب کے مصنف کے زمانے میں دمشق کے اندر ایک شخص رہا کرتا تھا اور یہ واقعہ دراصل اس شخص کے ساتھ ہی پیش آیا تھا ۔
کہتا ہے کہ میں لوگوں کو اپنے گدھے پر بٹھا کر دمشق سے لے کر
زیدانی تک جایا کرتا تھا اور اس سفر سے جو کرایہ مجھے ملتا ، اسی
کرائے کے ساتھ ہی میری گزر بسر ہوا کرتی تھی اور ایک دن
معمول میں نے ایک شخص کو گدھے پر کرائے کی سواری کے طور پر
بٹھا لیا ۔
حسب
ہم لوگ سفر کرتے رہے حتیٰ کہ ... ہم ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ جہاں
راستہ دو حصوں میں بٹ رہا تھا ۔ میں اس راستے پر ہونے لگا جس کے
متعلق مجھے علم تھا لیکن اچانک وہ شخص بولا کہ نہیں ! ... اس
دوسرے راستے سے چلو ! یہ ہمیں جلدی منزل تک پہنچا
میں نے اسے کہا کہ نہیں ، مجھے یہ پہلا والا راستہ زیادہ معلوم ہے لیکن وہ شخص اصرار کرنے لگا تو اس کی ضد کے آگے میں خاموش ہو گیا اور ہم نے اپنا گدھا اس انجان راستے پر ڈال دیا ۔
تقریباً شام کے قریب ہم ایک بیابان گھنے جنگل میں ایک ایسی جگہ پہنچے ... کہ جہاں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور یہ سب دیکھ کر میری روح فناء ہو گئی ۔ اور ابھی میں واپس جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ وہ شخص گدھے سے نیچے اتر پڑا اور اپنے پیٹے سے ایک خنجر نکال کر مجھے قتل کرنے کے لیے جھپٹا ۔
... میں ڈر کر بھاگا لیکن وہ شخص انتہائی پھرتیلا تھا یہاں تک ... کہ اس نے بھاگ کر مجھے پکڑ لیا ۔ میں اس کے قدموں میں گر کر رونے لگا کہ تم میرا گدھا رکھ لو ، میرے پیسے رکھ لو لیکن مجھے جانے دو لیکن وہ میری ایک نہیں مانا ۔
بالآخر میں نے اسے منت سماجت کی کہ پھر موت سے پہلے مجھے رب کے حضور ایک نماز پڑھ لینے دو !
اس پر وہ انتہائی تلملایا اور مجھے جلدی نماز پڑھنے کا کہہ کر خود
انتظار کرنے لگا ۔
میں نماز کے لیے کھڑا ہوا لیکن نماز تھی کہ خوف کے مارے میری زبان پر ایک حرف تک نہیں آ رہا تھا ۔ قرآن تھا کہ اس کی تلاوت شروع بھی نہ ہو پا رہی تھی لیکن نہ جانے کیسے میری زبان پر النمل کی یہی 62 نمبر آيت ورد ہونا شروع ہو گئی کہ کون ہے ... کہ جو مجبور کی دعا سنتا ہے ؟ کون ہے ... کہ جو اس کی سختی کو دور کرتا ہے ؟
اور اچانک ... میرے دیکھتے ہی دیکھتے جنگل سے ایک بڑا سا سفید رنگ کا گھڑ سوار نکلا اور بجلی کی سی رفتار سے بھاگتا ہوا آیا اور اس شخص کے کلیجے میں اپنا نیزہ گاڑھ دیا اس قدر شدت کے ساتھ کہ اسے دوباره ... سانس لینا تک نصیب نہ ہوا ۔میں گم سم بیٹھا تیزی کے ساتھ اوراٹھا اور اپناگدھا پکڑ کر
دوڑا ایسے ... کہ پھر واپس دمشق پہنچ کر ہی دم لیا ۔
آپ کو پتہ ہے کہ پچھلے دنوں اپنی پریشانی کے دوران میں اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوا ہوں ۔ اور اللہ کے حضور آسانی کی دعائیں مانگتے مجھے وہب ابن منبہ کی ایک نصیحت پڑھنے کو ملی ۔
وبب ابن منبہ یعنی ایک تابعی ... کہ جنہوں نے صحابہ کرام سے ڈائریکٹ علم سیکھا تھا ، کہتے ہیں کہ میں نے قدیم کتابوں میں اللہ تعالیٰ کا ایک فرمان پڑھا ہے کہ مجھے میری عزت کی قسم ....
جو شخص مجھ پر بھروسہ کرے اور مجھے تھام لے ... تو میں اسے اس کے مخالفین سے ضرور بچاؤں گا چاہے زمین و آسمان کی تمام مخلوقات مل کر ... اسے تکلیف دینے پر تُلی ہوئی ہوں اور جو مجھ پر اعتماد نہ کرے ... تو امن میں ہونے کے باوجود میں اسے زمین میں اس طرح گاڑھ سکتا ہوں کہ کوئی اس کی مدد تک نہیں کر سکے گا ۔
میں جانتا ہوں کہ اگر واقعی ہم اس وقت کسی بون فائر کے گرد بیٹھے
ہوتے ... تو یقیناً آپ اس وقت ایک گہری سوچ میں چلے جاتے کیوں کہ یہ واقعات سننے کے بعد اب اس آیت کا پڑھنا
واقعی ایک بالکل مختلف طریقے سے hit کرتا ہے کہ کون ہے
کہ جو سنتا ہے مجبور کی پکار کو ، کہ جب وہ اسے پکارے ؟ ... کون ہے
کہ جو اس کی سختیوں کو دور کرتا ہے ؟ مفہوم آیت النمل (27:62
امید ہے کہ آپ کو آج رات کی میری آگ کے الاؤ والی بیٹھک پسند آئی
ہو گی ... شکریہ
مومن رسپانس لائیو ۔کوم
Comments
Post a Comment